تحریر: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اِنسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام، وقار اور مساوات پر مبنی ہے۔ قرآن حکیم کی رو سے اللہ رب العزت نے نوعِ انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا کی ہے۔ قرآن حکیم میں شرف انسانیت وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ تخلیق آدم کے وقت ہی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم ں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اور اس طرح نسل آدم کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاًO (القرآن، بنی اسرائیل،17 : 70)
”اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا فضیلت دے کر برتر بنا دیاo“
قرآن حکیم کے الفاظ
أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللَّهَ سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (القرآن، لقمان، 31 : 20)
”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے سب کو تمہارے ہی کام لگا دیا ہے۔“
اور ارشاد کہ
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍO (القرآن، التین، 95 : 4)
”ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی ) ساخت پر بنایا ہےo“
بیان کرتے ہیں کہ انسان کو شرف و تکریم سے نوازا گیا ہے اور اس کو انعامات و نوازشات الٰہیہ کے باعث اعلیٰ مرتبہ کمال تفویض کیا گیا ہے۔ مساوات انسانی کو اسلام نے بے حد اہمیت دی ہے۔ اس حوالے سے کوئی اور مذہب اور نظام اقدار اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ قرآن حکیم نے بنی نوع انسان کی مساوات کی اساس بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍوَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًاO(القرآن، النساء، 4 : 1)
”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتداء) ایک جان سے کی، پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا، پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اﷲ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو، اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اﷲ تم پر نگہبان ہےo“
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌO(القرآن، الحجرات، 49 : 13)
”اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تمہارے طبقات اور قبیلے بنا دیئے تاکہ ایک دوسرے کو پہچان سکو بے شک اللہ کے نزدیک تو تم سب میں عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہو، بے شک اللہ سب کچھ جانتا باخبر ہےo“
حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خطبہ حجۃ الوداع میں واضح الفاظ میں اعلان فرمایا:
یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا لاسود علی احمر الا بالتقویٰ۔(احمد بن حنبل، المسند، 5 : 411، رقم: 23536)
”اے لوگو! خبردار ہوجاؤ کہ تمہارا رب ایک ہے اور بیشک تمہارا باپ (آدم علیہ السلام) ایک ہے۔ کسی عرب کو غیر عرب پر اور کسی غیر عرب کو عرب پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی سفید فام کو سیاہ فام پر اور نہ سیاہ فام کو سفید فام پر فضیلت حاصل ہے سوائے تقویٰ کے۔“
حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مزید ارشاد فرمایا:
الناس کلہم بنو آدم و آدم خلق من تراب۔
”تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے۔“
اس طرح اسلام نے تمام قسم کے امتیازات اور ذات پات، نسل، رنگ، جنس، زبان، حسب و نسب اور مال و دولت پر مبنی تعصبات کو جڑ سے اکھاڑ دیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے ہم پلہ قرار دیا خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، سفید ہوں یا سیاہ، مشرق میں ہوں یا مغرب میں، مرد ہوں یا عورت اور چاہے وہ کسی بھی لسانی یا جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ انسانی مساوات کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں، نسلوں اور زبانوں سے تعلق رکھنے والے ہر سال مکۃ المکرمہ میں ایک ہی لباس میں ملبوس حج ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
احترامِ آدمیت اور نوعِ بشر کی برابری کے نظام کی بنیاد ڈالنے کے بعد اسلام نے اگلے قدم کے طور پر عالم انسانیت کو مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی شعبہ ہائے زندگی میں بے شمار حقوق عطا کئے۔ انسانی حقوق اور آزادیوں کے بارے میں اسلام کا تصور آفاقی اور یکساں نوعیت کا ہے جو زماں و مکاں کی تاریخی اور جغرافیائی حدود سے ماورا ہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کا منشور اُس اللہ کا عطا کردہ ہے جو تمام کائنات کا خدا ہے اور اس نے یہ تصور اپنے آخری پیغام میں اپنے آخری نبی حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے دیا ہے۔ اسلام کے تفویض کردہ حقوق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام کے طور پر عطا کئے گئے ہیں اور ان کے حصول میں انسانوں کی محنت اور کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں۔ دنیا کے قانون سازوں کی طرف سے دیئے گئے حقوق کے برعکس یہ حقوق مستقل بالذات، مقدس اور ناقابل تنسیخ ہیں۔ ان کے پیچھے الٰہی منشا اور ارادہ کار فرما ہے اس لئے انہیں کسی عذر کی بناء پر تبدیل، ترمیم یا معطل نہیں کیا جا سکتا۔ ایک حقیقی اسلامی ریاست میں ان حقوق سے تمام شہری مستفیض ہوسکیں گے اور کوئی ریاست یا فرد واحد ان کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اور نہ ہی وہ قرآن و سنت کی طرف سے عطا کردہ بنیادی حقوق کو معطل یا کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
اسلام میں حقوق اور فرائض باہمی طور پر مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر تصور کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں فرائض، واجبات اور ذمہ داریوں پر بھی حقوق کے ساتھ ساتھ یکساں زور دیا گیا ہے۔ اس ذیل میں متعدد آیات قرآنی اور احادیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، جن سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلامی شریعت کے ان اہم ماخذ و مصادر میں انسانی فرائض و واجبات کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
وَاعْبُدُواْ اللّهَ وَلاَ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالاً فَخُورًاO
(القرآن، النساء، 4 : 36)
”اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں (سے) اور نزدیکی ہمسائے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر (سے)، اور جن کے تم مالک ہوچکے ہو، (ان سے نیکی کیا کرو)، بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبر کرنے والا (مغرور) فخر کرنیوالا (خودبین) ہوo“
حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی درج ذیل حدیث مبارکہ میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے باہمی تعلق کو بڑی تاکید سے بیان کیا گیا ہے:
عن معاذ بن جبل قال قال رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یا معاذ اتدری ما حق اﷲ علی العباد قال اﷲ ورسولہ اعلم! قال ان یعبد اﷲ ولا یشرک بہ شیاء قال اتدری ماحقہم علیہ اذا فعلوا ذلک فقال اﷲ ورسولہ اعلم قال ان لا یعذبہم۔
(مسلم، الصحیح، 1 : 59، رقم 30)
”حضرت معاذ (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: اے معاذ کیا تو جانتا ہے کہ اللہ کا بندے پر کیا حق ہے؟ حضرت معاذ نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یقیناً اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: کیا تو جانتا ہے کہ اللہ پر بندے کا کیا حق ہے؟ حضرت معاذ نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ (اپنے ایسے) بندوں کو عذاب نہ دے۔“
اسی طرح حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل ایمان کو تلقین فرمائی ہے کہ وہ ان فرائض کو ادا کریں جو ان پر ان کے والدین، بچوں، عورتوں، ان کے پڑوسیوں، غلاموں اور ذمیوں وغیرہ کی طرف سے عائد ہوتے ہیں۔
یہ امر باعث صد تاسف ہے کہ آج مغرب کو انسانی حقوق کا علم بردار قرار دیتے وقت یہ بات نظر انداز کردی جاتی ہے کہ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے عالم انسانیت کو اس سے کہیں زیادہ حقوق عطا کردیئے تھے جبکہ انسانی حقوق کا تصور اپنی موجودہ شکل میں مغرب میں ابھی حال ہی میں متعارف ہوا ہے۔ سولہویں اور سترھویں صدی میں مغربی سیاسی مفکرین اور ماہرین قانون نے شہری آزادیوں اور بنیادی حقوق کا تصور دیا اور عامۃ الناس کو ان حقوق کا شعور دے کر انسانی ضمیر کو بیدار کیا۔
(Reader`s Digest Library of Modern Knowledge, Vol-2, 25 Berkeley Square, London, 1979, P-666)
ان کے نظریات نے حکمرانوں اور ان کی رعایا کے درمیان ایک طویل ختم نہ ہونے والی کشمکش کو جنم دیا جس کے نتیجے میں استعماری طاقتوں اور ان کے زیرتسلط مقہور عوام کے مابین آزادی اور بنیادی حقوق کے لئے تصادم اور جدوجہد شروع ہو گئی۔ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں انسانی حقوق کے میدان میں عملی پیش رفت ہوئی، جب اہل برطانیہ نے 1215ء میں میگنا کارٹا (Magna Corta) کی بنیاد کے بعد 1628ء میں حقوق کی عرضداشت (Petition of Rights)
(Francis D. Wormuth, The Organs of Modern Constitutionalism, Harper & Brothers Pb., NY, 1949. P.99)
اور 1689ء میں بل آف رائٹس (Bill of Rights) حاصل کر لئے
(The Hutchinson Encyclopedia, Helicon Publishing Ltd., 42 Hythe Bridge Street, Oxford, 1998, p.125)
اور اہل فرانس کو انقلابِ فرانس (1789) کے ساتھ ہی اعلامیہ حقوق کے ڈیکلریشن کے ذریعے شہری آزادیاں اور حقوق مل گئے
(The Hutchinson Encyclopedia, Helicon Publishing Ltd., 42 Hythe Bridge Street, Oxford, 1998, p.412,914)
جبکہ امریکہ کو 1776ء کے اعلانِ جنگِ آزادی کے ذریعے آزادی نصیب ہوئی
(The Hutchinson Encyclopedia, Helicon Publishing Ltd., 42 Hythe Bridge Street, Oxford, 1998, p.300,1094)
انہیں 1791ء میں ”بل آف رائٹس“ (Bill of Rights) کی شکل میں بنیادی حقوق حاصل ہوئے جو امریکی آئین میں پہلی دس ترامیم کی بنیاد بنی
(i. Reader`s Digest Library of Modern Knowledge, Vol-2, 25
Berkeley Square, London, 1979, P-667
ii. The Hutchinson Encyclopedia Helicon Publishing Ltd., 42 Hythe Bridge
Street, Oxford, 1998, p.124,1094)
اقوامِ متحدہ (UNO) کی کاوشوں کے زیر اثر بالخصوص اس کے متعدد کنونشنوں اور اعلانات کے بعد دورِ حاضر کی تمام جدید ریاستوں نے بنیادی حقوق کو اپنے اپنے آئین کا حصہ بنالیا۔
(i. Reader`s Digest Library of Modern Knowledge, Vol-2, 25
Berkeley Square, London, 1979, P-680,681
ii. World Conference on Human Rights, The Vienna Declaration, June 1993,
UNO, NY, 1995.)
اِنسانی حقوق کا قرآنی فلسفہ
اِسلام جملہ شعبہ ہائے حیات میں اعتدال اور توازن کا درس دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زندگی کے ہر پہلو کے حوالے سے ایسی تعلیمات عطا کیں جو زندگی میں حسین توازن پیدا کرنے کی ضمانت دیتی ہیں۔ اسلام کا یہ بنیادی اصول اس کی تمام تعلیمات اور احکام میں کارفرما ہے۔ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عطا کردہ انسانی حقوق بھی اسی روح سے مملو ہیں۔ دنیا کے دیگر معاشرتی و سیاسی نظام حق کے احترام و ادائیگی کی اس بلندی و رفعت کی نظیر پیش نہیں کرسکتے جس کا مظاہرہ تعلیمات نبوی میں نظر آتا ہے۔ اسلام کا فلسفہ حقوق دیگر نظام ہائے حیات کے فلسفہ حقوق سے بایں طور مختلف و ممتاز ہے:
1۔ اسلام مطالبہ حق(Demand of Rights) کی بجائے ایتائے حق (Fulfilment of Rights) کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اوپر عائد دوسرے افراد کے حقوق کی ادائیگی کے لئے کمربستہ رہے۔ اور یہاں تک کہ وہ صرف حق کی ادائیگی تک ہی محدود نہ رہے بلکہ اس ادائیگی کو حد احسان تک بڑھا دے۔ قرآن فرماتا ہے:
إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (النحل، 16 : 90)
”بے شک اللہ (تمہیں) عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔“
مذکورہ بالا آیۃ مبارکہ میں مذکور عدل اور احسان قرآن حکیم کی دو اصطلاحات ہیں۔ عدل کا مفہوم تو یہ ہے کہ وہ حقوق جو شریعت اور قانون کی رو سے کسی فرد پر لازم ہیں وہ ان کی ادائیگی کرے جبکہ احسان یہ ہے کہ فرض و عائد حقوق سے بڑھ کر بھی وہ دوسرے افراد معاشرہ سے حسن سلوک کرے۔
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عطا کردہ تصور احسان انسانی معاشرے کو سراپا امن و آشتی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے کیونکہ ایک فرد کا فرض دوسرے کا حق ہے جب ہر فرد اپنے فرائض کو ادا کرے گا یعنی دوسرے کے حقوق پورا کرنے کے لئے کمربستہ رہے گا تو لامحالہ معاشرے میں کسی طرف بھی حقوق کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مطالبہ حقوق کی صدا بلند نہ ہوگی، اور پورے معاشرے کے حقوق از خود پورے ہوتے رہیں گے اور اس طرح معاشرہ قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے احترام کا آئینہ دار بن جائے گا۔
2۔ حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسانی حقوق کا ایسا نظام عطا کیا ہے جہاں حقوق و فرائض میں باہمی تعلق و تناسب (Reciprocal Relationship and Proportionality) پایا جاتا ہے۔ یعنی کوئی شخص بغیر اپنے فرائض پورے کئے حقوق کا مطالبہ نہ کرے گا۔ چونکہ اساسی زور فرائض کی ادائیگی اور ایتائے حقوق پر ہے، سو کوئی بھی فرد معاشرہ اس وقت تک اپنے حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے فرائض ادا نہ کرچکا ہو۔ اور فرائض کی ادائیگی کی صورت میں حقوق کا حصول ایک قدرتی اور لازمی تقاضے کے طور پر خود بخود ہی تکمیل پذیر ہوجائے گا۔
3۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حقوق انسانی کا ایسا جامع تصور عطا کیا جس میں حقوق و فرائض میں باہمی توازن پایا جاتا ہے۔ اس بنیادی تصور کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی کئی مغالطوں نے بھی جنم لیا۔ حقوق و فرائض کے مابین توازن ہی کے سبب سے بعض اوقات ظاہراً حقوق کے مابین عدم مساوات نظر آتی ہے حالانکہ درحقیقت ایسا نہیں۔ مثلاً عورتوں اور مردوں کے حصہ ہائے وراثت میں موجود فرق بھی اس حکمت کی وجہ سے ہے ورنہ مطلق حقوق کے باب میں مرد و عورت میں کوئی تمیز روا نہیں رکھی گئی۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (القرآن، البقرہ، 2 : 228)
”اور دستور کے مطابق عورتوں کے مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔“
جبکہ میراث میں لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ (القرآن، النساء، 4 : 11) (لڑکے کے لیے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے) کے اصول کے تحت جو فرق رکھا گیا وہ مرد و عورت پر عائد دیگر فرائض اور ذمہ داریوں کی وجہ سے ہے۔ چونکہ مرد ہی خاندان کی کفالت اور دیگر امور کا ذمہ دار ہے جبکہ عورت کو اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا گیا لہٰذا وراثت میں مرد کا حصہ بھی دوگنا کر دیا گیا تاکہ وہ اپنی معاشی و کفالتی ذمہ داریوں سے بطور احسن عہدہ برآ ہو سکے۔
4۔ اسلام نے بعض امور کو ان کی قانونی و معاشرتی اہمیت کے پیش نظر حق نہیں بلکہ فرض قرار دیا اور ان کی عدم ادائیگی پر سزا کا مستوجب ٹھہرایا ہے مثلاً شہادت (گواہی)۔ اسلام میں گواہی دینا مردوں پر فرض ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن كَتَمَ شَهَادَةً عِندَهُ مِنَ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَO (القرآن، البقرہ، 2 : 140)
”اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس نے اس گواہی کو چھپایا جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے موجود ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیںo“
وَلاَ تَكْتُمُواْ الشَّهَادَةَ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ وَاللّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO (القرآن، البقرہ، 2 : 283)
”اور تم گواہی کو نہ چھپایا کرو، اور جو شخص گواہی چھپاتا ہے تو یقیناً اس کا دل گنہگار ہے، اور اﷲ تمہارے اعمال کو خوب جاننے والا ہےo“
معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لئے گواہی کا شفاف اور مؤثر نظام لازمی عنصرکی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اسلام نے مردوں کو ہر حال میں گواہی دینے کا پابند بنایا جبکہ دوسری طرف عورتوں کو ان کی ذمہ داریوں کے فطری فرق کے پیش نظر اس ذمہ داری سے مبرا قرار دیا اور گواہی کو فرض کی بجائے ان کا حق قرار دیا۔اور اسی لئے اس کی شرائط بھی مختلف کر دیں۔ یہاں مرد و عورت کے حقوق میں امتیاز مقصود نہیں بلکہ گواہی کے نظام کو مؤثر بنانا مقصود ہے حالانکہ بعض معاملات میں صرف عورتوں ہی کی گواہی معتبر ہوتی ہے جس کی تفصیلات آگے آ رہی ہیں۔
تبصرہ