بین المذاہب رواداری

انسانی زندگی میں مذہب کی ضرورت و اہمیت سے کوئی بھی باشعور انسان انکار نہیں کر سکتا، جب انسان اپنے گرد موجود وسیع و عریض کائنات پر نگاہ ڈالتا ہے، کائنات اور اپنی ذات کی تخلیق پر غور و فکر کرتا ہے تو اس کے ذہن میں بے شمار سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اسے اپنے اور کائنات کے خالق و مالک کے بارے میں جاننے کی جستجو ہوتی ہے۔ یہ جستجو انسان کو اپنے خالق کی طرف راغب کرتی ہے اور رغبت کے اسی احساس اور اظہار کو مذہب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہر مذہب نے انسان کے ان سوالوں کے جوابات اپنے فکر و فلسفہ کی روشنی میں دیئے اور اسی سے ہر مذہب کے اعتقادات کا نظام وجود میں آیا۔ دنیا کے تمام مذاہب بنیادی عقائد کے اعتبار سے مختلف ہونے کے باوجود ایک فلسفہ حیات پر یقین رکھتے ہیں جو انسانوں کے مابین خوشگوار تعلقات، اخوت، صلح، برداشت، رواداری اور محبت کا پیغام ہے۔

دنیا کے تمام مذاہب بنیادی طور پر انسانیت اور امن کا پیغام دیتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بدقسمتی سے مذاہب کے درمیان تناؤ اور عداوت کا ماحول پایا جاتا ہے۔ مختلف مذاہب کے مابین خوشگوار ماحول کو برقرار رکھنے اور بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لئے ان کے مابین مکالمہ کی اہمیت کو اجاگر کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دینِ اسلام اپنے پیروکاروں کو آپس میں رشتہ اخوت کی بنیاد پر جوڑتا ہے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی اور حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔ اسلام کا نکتہ نظر یہ ہے کہ مذہب اور اعتقاد کا معاملہ ہر انسان کے اپنے ذاتی فیصلے اور اختیار پر مبنی ہے اور اس معاملے میں زور زبردستی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ دنیا خدا نے انسانوں کے علم و عقل اور عمل کی آزمائش کے لئے بنائی ہے، جس کے لئے انسانوں کو عقیدہ و عمل کی آزادی کا حاصل ہونا لازم ہے۔ اس لیے دنیا میں ہمیشہ مذہبی اختلافات رہے ہیں اور رہیں گے۔ قرآن حکیم نے مجادلہ و مکالمہ کے لیے احسن انداز کو اخیتار کرنے کا حکم دیا ہے اور معاشرتی انتشار کے خطرناک عواقب اور نتائج سے خبردار کیا ہے۔ میثاق مدینہ، نجران کے مسیحیوں اور کوہ سینا کی خانقاہ مقدسہ کیتھرین کے راہبوں کے ساتھ معاہدات جیسی سیرتِ طیبہ کی روشن مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

بانئ پاکستان کا تصورِ ریاست اور وطن عزیز کا آئین بہت واضح ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام ادیان و مذاہب کے پیروکار اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں آزاد ہیں اور کسی کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی گروہ پر مذہبی جبر کرے۔ بانی و سرپرستِ اعلیٰ منہاج القرآن انٹرنیشنل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے 1980 میں اپنی فکری و سماجی تحریک کی بنیاد ہی وحدت امت مسلمہ، بین المسالک ہم آہنگی، ادیان عالم کے مابین سماجی و ثقافتی تعلقات اور پرامن بقائے باہمی کو فروغ دے کر ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل جیسے اصولوں پر رکھی۔ ان عظیم مقاصد کے حصول کے لیے وطن عزیز میں بین المسالک ہم آہنگی کو پروان چڑھانے اور تفرقہ بازی کے خاتمے کیلئے عملی جدوجہد کی۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں رونما ہونے والے واقعات کے بعد ادیانِ عالم کے مابین مشترکات کی بنیاد پر بین المذاہب مکالمہ کی فضا کو قائم کرنے اور ان کے مابین ثقافتی ٹکراؤ کو روکنے کیلئے قیام امن، انسانی اقدار کے تحفظ، مذہبی رواداری، تحمل و برداشت اور انتہاپسندی و دہشت گردی کے خاتمے کا عَلم اٹھایا اور دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کرایا۔ بین المذاہب رواداری ایک وسیع تصور ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ’’معاشرے میں رہنے والے تمام انسان اپنے اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مشترکہ اقدار کی بناء پر اتفاق رائے، یکجہتی اور دوسرے کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی سماجی، معاشرتی زندگی کو بہتر طور پر گزاریں‘‘۔

منہاج القرآن انٹرنیشنل کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن لاہور میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی سرپرستی میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1998 میں دنیا کے سب سے بڑے دو مذاہب اسلام اور مسیحیت کے درمیان مکالمہ کے فروغ کیلئے ’’مسلم کرسچین ڈائیلاگ فورم‘‘ کا آغاز کیا گیا بعد ازاں دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے 2006 میں ’’نظامت بین المذاہب تعلقات‘‘ کو تشکیل دیا۔ اس نظامت کا بنیادی مقصد مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنا ان کی مذہبی وثقافتی تقاریب میں شریک ہو کر انہیں اسلام کے تصور امن و محبت، اخوت و بھائی چارے، انسانی اقدار کی عظمت اور احترام انسانیت کے عظیم تصور سے روشناس کرانا ہے۔

آج پوری دنیا میں مذہب کی طرف واپسی ہو رہی ہے اور لوگ مذہب میں دلچسبی لے رہے ہیں۔ مذہب کی صحیح اقدار کے ساتھ نمائندگی کے معاملے کو آج جو اہمیت حاصل ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ آج مذہب کی نمائندگی کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو نیک، باکردار، مخلص، صاف دل اور دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے والے ہوں، جو متکبر نہ ہوں اور جن کو دنیاوی اغراض نہ ہوں۔ اگر معاشرہ ان صفات کے حامل افراد پیدا کر رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بہت بہتر مستقبل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔



سلسلہ حقوق انسانی کے ضمن میں
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تصنیف
اسلام میں اقلیتوں کے حقوق

تبصرہ